شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

افتخار احمد خٹک

  • غزل


مرا ہم سفر کبھی وہم تھا کبھی خواب تھا کبھی کیا رہا


مرا ہم سفر کبھی وہم تھا کبھی خواب تھا کبھی کیا رہا
میں عجیب حال میں مست تھا سو مرا مذاق بنا رہا

مری مشکلوں نے عیاں کیا مرا یار دوست کوئی نہیں
سو قبیل حرص و ہواس میں میں اکیلا ڈٹ کے کھڑا رہا

مرے آشیاں کو جلا گئیں مرے خام سوچ کی حدتیں
مرا سر حیا سے نہ اٹھ سکا میں ندامتوں میں پڑا رہا

تجھے فخر تھا ترے حسن پر مجھے زعم تھا مرے عشق کا
تو پڑی رہی کسی سیج پر میں بھی گرد راہ بنا رہا

ترے لمس لمس سے جی اٹھا مرے سرد جسم کا روم روم
تو مری گلی سے چلی گئی میں تری گلی میں پڑا رہا

مرے باغ دل پہ خزاں رہی مری شاخ شاخ اجڑ گئی
مرے پاؤں خون سے تر بہ تر مرا زخم یوں بھی ہرا رہا


Leave a comment

+