شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اظہار وارثی

  • غزل


آسمانوں سا کھلا پن بھی مجھے چاہئے ہے


آسمانوں سا کھلا پن بھی مجھے چاہئے ہے
پاؤں تھک جائیں تو مسکن بھی مجھے چاہئے ہے

دوستو تم سے امیدیں تو بہت کچھ تھیں پر اب
ایک معقول سا دشمن بھی مجھے چاہئے ہے

قبل منزل کہیں لٹ جانے کی حسرت ہے بہت
راہبر ہی نہیں رہزن بھی مجھے چاہئے ہے

مسئلے کم نہیں ویسے ہی سلجھنے کے لیے
اور تری زلف کی الجھن بھی مجھے چاہئے ہے

وقت کے ساتھ بدلتی نہیں تحریر نہاد
تتلیاں دیکھوں تو بچپن بھی مجھے چاہئے ہے

اب تو اس شرط پہ چاہوں میں ترے حسن کی آنچ
آگ لگ جائے تو ساون بھی مجھے چاہئے ہے


Leave a comment

+