شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حزیں لدھیانوی

  • غزل


پھول کا پیغام لے جائے کوئی مالی کے نام


پھول کا پیغام لے جائے کوئی مالی کے نام
اس سراپا فصل گل گلزار کے والی کا نام

میں بہادر شہ‌ ظفرؔ اور درد کا رنگون ہے
کیا لکھوں غالبؔ کے نام اور کیا لکھوں حالیؔ کے نام

سبزۂ بیگانہ ہو یا لالہ و گل کی قبا
وقف ہے میرا لہو گلشن کی ہریالی کے نام

لکھ رہا ہوں اپنے ہاتھوں کی خراشوں کا سلام
یار کے دست حنائی کی حسیں لالی کے نام

اے ندیم ماہ و انجم آ کوئی پیغام دے
پستیوں میں ڈگمگاتی بے پر و بالی کے نام

اصل میں سیل خزاں لاتا ہے پیغام بہار
ہر شگوفہ ہر کلی ہر پات ہر ڈالی کے نام

تیرا دیوانہ حزیںؔ منسوب کرتا ہے بہ شوق
یہ غزل اے عشق تیری فطرت عالی کے نام


Leave a comment

+