شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حرمت الااکرام

  • غزل


جیسے جیسے درد کا پندار بڑھتا جائے ہے


جیسے جیسے درد کا پندار بڑھتا جائے ہے
اعتماد لذت آزار بڑھتا جائے ہے

دل امڈتا آئے ہے مٹی ہوئی جاتی ہے نم
زندگی پر زندگی کا بار بڑھتا جائے ہے

یہ نہ پوچھو دیکھتا جاتا ہے مڑ مڑ کر کسے
ایک دیوانہ کہ سوئے دار بڑھتا جائے ہے

کچھ نہ کچھ ہونا ہے آخر تپ کے کندن جل کے راکھ
دل کی جانب شعلۂ افکار بڑھتا جائے ہے

آگہی کا صدقہ واجب ہے اٹھاؤ جام زہر
لمحہ لمحہ وقت کا اصرار بڑھتا جائے ہے

سختی راہ طلب سے دل لرزتا ہے مگر
مجھ سے آگے جذبۂ بیدار بڑھتا جائے ہے

رفتہ رفتہ سوز حرماں ہوتا جاتا ہے فزوں
رفتہ رفتہ زندگی سے پیار بڑھتا جائے ہے

یہ جہان آب و گل ہے امتحاں گاہ شعور
غم بقدر عظمت کردار بڑھتا جائے ہے

کیا خبر حرمتؔ کہ تکمیل سفر ہو کس طرح
التفات وادیٔ پرخار بڑھتا جائے ہے


Leave a comment

+