شکوہ اب گردش ایام کا کرتے کیوں ہو
خواب دیکھے تھے تو تعبیر سے ڈرتے کیوں ہو
خوف پاداش کا لفظوں میں کہیں چھپتا ہے
ذکر اتنا رسن و دار کا کرتے کیوں ہو
تم بھی تھے زود یقینی کے تو مجرم شاید
سارا الزام اسی شخص پہ دھرتے کیوں ہو
عافیت کوش اگر ہو تو برا کیا ہے مگر
راہ پر خار محبت سے گزرتے کیوں ہو
جاں بہ لب کو نہیں ایفا کی توقع خود بھی
اپنے وعدے سے بلا وجہ مکرتے کیوں ہو
Leave a comment