شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غواص قریشی

  • غزل


اگر ہو چشم حقیقت تو دیکھ کیا ہوں میں


اگر ہو چشم حقیقت تو دیکھ کیا ہوں میں
فنا کے رنگ میں اک جوہر بقا ہوں میں

طلسم بند سے مشکل رہائی ہے دل کی
حصار‌ چشم فسوں ساز میں گھرا ہوں میں

مٹا مٹا کے مجھے ایک دن مٹا دے گا
زمانہ ساز تری چال جانتا ہوں میں

کمال عشق تصور ہے اوج پر ایسا
ترے جمال کو ہر شے میں دیکھتا ہوں میں

مری تلاش میں گم ہیں مسافران عدم
حدود وہم سے آگے نکل گیا ہوں میں

تلاش جس کی ہے ہر اک کو میں وہ منزل ہوں
جو طے نہ کر سکے کوئی وہ مرحلہ ہوں میں

تلاش جس کی مجھے کھو چکی ہے اے غواصؔ
اسی کو بحر تحیر میں ڈھونڈھتا ہوں میں


Leave a comment

+