شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غنی اعجاز

  • غزل


تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں


تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں
سفر جاری قدم ٹوٹے ہوئے ہیں

بظاہر تو ہیں سالم جسم و جاں سے
مگر اندر سے ہم ٹوٹے ہوئے ہیں

ادھورے ہیں یہاں سارے کے سارے
سبھی تو بیش و کم ٹوٹے ہوئے ہیں

برا ہو اعتماد باہمی کا
کہ سب قول و قسم ٹوٹے ہوئے ہیں

تعلق ٹوٹنے کو ہے جہاں سے
چلو کہ بند غم ٹوٹے ہوئے ہیں

خدا کا گھر نہ بخشا ظالموں نے
کئی دیر و حرم ٹوٹے ہوئے ہیں

انہیں منصف نہیں قاتل کہو تم
کہ سب ان کے قلم ٹوٹے ہوئے ہیں


Leave a comment

+