شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غلام حسین ساجد

  • غزل


شگفت آب سے مٹی کو آئنہ کرتے


شگفت آب سے مٹی کو آئنہ کرتے
چراغ سرد نہ ہوتے تو زمزمہ کرتے

بہت سے رنگ بھی رکھتے ہیں طاقت پرواز
ہوا میں صرف پرندے نہیں اڑا کرتے

اثر نہ لیجئے اس گرم و سرد کا دل پر
کہ شور و شر سے پریشاں نہیں ہوا کرتے

بندھے ہوئے تھے مرے ہاتھ بھی تمہاری طرح
وفا سرشت میں ہوتی تو ہم وفا کرتے

زمین اوڑھ کے سوئے ہیں صاحبان عشق
اب اس گلی کے دریچے نہیں کھلا کرتے

عجیب پیاس تھی اس دل ربا کی آنکھوں میں
ہم ان کو چوم نہ لیتے تو اور کیا کرتے

بہت کشادہ تھی یہ ارض پاک ان پر بھی
اگر وہ گھر سے نکلنے کا حوصلہ کرتے

جگہ نہ دیتے کسی خوف کو کبھی دل میں
کسی سے عشق جو کرتے تو برملا کرتے

اگر خراب ہوئے مہر و ماہ کے ہاتھوں
کسی چراغ کے حق میں تو کچھ دعا کرتے

خیال ان کو نہ ہوتا اگر محبت کا
کبھی وہ نیند میں چلتے نہ رت جگا کرتے

بدل دیا ہے زمانے نے اس کو بھی ساجدؔ
پھر ایک بار کبھی اس سے رابطہ کرتے


Leave a comment

+