شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غلام حسین ساجد

  • غزل


میں اس پری کا اگر مدعا نہیں سمجھا


میں اس پری کا اگر مدعا نہیں سمجھا
سمجھ میں کیا نہیں آیا میں کیا نہیں سمجھا

یہی بہت ہے کہ اس بار بھی میں دشمن کو
برا سمجھتے ہوئے بھی برا نہیں سمجھا

وہ مانتا ہے مرے اختلاف کے حق کو
اسے بٹھایا ہے سر پر خدا نہیں سمجھا

چراغ و آئنہ حیران کیوں نہیں ہوں گے
کہ میں صباحت گل کی ادا نہیں سمجھا

کسی بکھرتے ہوئے خواب کے تعاقب میں
نکل پڑا ہوں مگر راستہ نہیں سمجھا

بہت سے رنج سہے اپنی جان پر لیکن
ترے وجود کو خود سے جدا نہیں سمجھا

ہزار میں نے ہر اک چیز کی وضاحت کی
مگر وہ شخص مرا مسئلہ نہیں سمجھا

اسی نے آگ لگائی تھی میرے ہاتھوں کو
جسے میں بھول سے برگ حنا نہیں سمجھا

کسی کی اڑتی ہوئی نیند کی حقیقت کو
نگر میں کوئی بھی میرے سوا نہیں سمجھا

کھڑا ہوا تھا کہیں بام عرش پر ساجدؔ
مگر زمین کو تحت الثریٰ نہیں سمجھا


Leave a comment

+