شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غبار بھٹی

  • غزل


مجھے کس طرح سے نہ ہو یقیں کہ اسے خزاں سے گریز ہے


مجھے کس طرح سے نہ ہو یقیں کہ اسے خزاں سے گریز ہے
جو نسیم‌ صبح بہار کو مرے گلستاں سے گریز ہے

یہ عبودیت کا ہے اقتضا کہ اسی پہ خم ہو مری جبیں
یہ غلط کسی نے ہے کہہ دیا ترے آستاں سے گریز ہے

ہے عجیب قسم کی بد ظنی مجھے اس کی کوئی خبر نہیں
گل و خار کو بھی بہار میں مرے گلستاں سے گریز ہے

کچھ عجب نہیں جو قدم قدم مرے راہبر ہی ہوں راہزن
نہیں متفق کوئی فرد جب مجھے کارواں سے گریز ہے

مرے داغ دل کی ہی تابشیں ہیں جمال بخش دل و نظر
یہی بات ہے کہ تمام شب مجھے کہکشاں سے گریز ہے

یہ شکیب سے نہیں آشنا اسے کچھ وفا سے غرض نہیں
یہی راز ہے یہی وجہ ہے جو دل تپاں سے گریز ہے

ہے تلاش وسعت لا مکاں کہ جہاں پہ کچھ ہو سکون دل
ہو جہاں بھی بندش آب گل مجھے اس مکاں سے گریز ہے

یہ تضاد عشق غبارؔ ہے کوئی کس طرح سے سمجھ سکے
کبھی پائے باز پہ سر ہے خم کبھی آستاں سے گریز ہے


Leave a comment

+