شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غالب احمد

  • غزل


منظر ہوش سے آگے بھی نظر جانے دے


منظر ہوش سے آگے بھی نظر جانے دے
جا رہا ہے یہ مسافر تو ادھر جانے دے

تیری آواز کی پرواز میں ہے میرا وجود
اپنی گفتار کے پردوں میں بکھر جانے دے

نہ کوئی چشم تمنا نہ کوئی دست دعا
زندگی تو مجھے بے لوث گزر جانے دے

تیرے قابل بھی نہیں تیرے مقابل بھی نہیں
ہم سفر ساتھ مجھے اپنے مگر جانے دے

تو تو ہے حسن ازل اور مرا رنگ غزل
میری آواز میں بھی کچھ تو اثر جانے دے

میرے اشعار میں صدیوں کے تلاطم کا شعور
کاش تو ان کو ذرا دل میں اتر جانے دے


Leave a comment

+