زندگی دوڑتی ہے سڑکوں پر
اور پھر موت بھی ہے سڑکوں پر
دن دہاڑے پڑا ہے اک زخمی
کیا عجب تیرگی ہے سڑکوں پر
لوگ بس بے دلی سے چلتے ہیں
یعنی بے چارگی ہے سڑکوں پر
عمر گھر میں تو اس کی کم گزری
اور زیادہ کٹی ہے سڑکوں پر
مفلسی کیسی کیسی شکلوں میں
تو بھی اکثر ملی ہے سڑکوں پر
چلتے ہم تم بھی ہیں مگر فرحتؔ
ہوڑ رفتار کی ہے سڑکوں پر
Leave a comment