شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فرح اقبال

  • غزل


مدتوں ہم سے ملاقات نہیں کرتے ہیں


مدتوں ہم سے ملاقات نہیں کرتے ہیں
اب تو سائے بھی کوئی بات نہیں کرتے ہیں

دشت حیراں کا پتہ آج بھی معلوم نہیں
اب تو راہوں میں بھی ہم رات نہیں کرتے ہیں

معبدوں میں جو جلاتے تھے دیے میرے لیے
اب سر شام مناجات نہیں کرتے ہیں

بانٹ دیتے ہیں سبھی خواب سہانے اپنے
دامن درد سے خیرات نہیں کرتے ہیں

روک لیتے تھے جو جنگل میں وہ آسیب بھی اب
چپ ہی رہتے ہیں سوالات نہیں کرتے ہیں

وہ جو برسے تھے عنایات کے بادل ہم پر
وہ بھی اب پہلی سی برسات نہیں کرتے ہیں

کتنے برہم تھے فرحؔ ٹوٹ کے جب بکھرے تھے
آج کل ہم بھی شکایات نہیں کرتے ہیں


Leave a comment

+