شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فراست رضوی

  • غزل


یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے


یہ اشک آنکھ میں کس جستجو کے ساتھ آئے
کہ تیرے ذکر تری گفتگو کے ساتھ آئے

میں ایک نخل تھا یک رنگی خزاں کا اسیر
یہ سارے رنگ تری آرزو کے ساتھ آئے

جو کھو گئے تھے کہیں عمر کے دھندلکوں میں
وہ عکس پھر کسی آئینہ رو کے ساتھ آئے

فروغ نشۂ مے سے بھی جی بہل نہ سکا
بہت سے غم تھے جو موج سبو کے ساتھ آئے

گلا نہ کر جو سر شہر جوئے خوں ہے رواں
کہ انقلاب جب آئے لہو کے ساتھ آئے

گئے تو صرف متاع سکوت لے کے گئے
جو اس نگر میں بڑی ہاؤ ہو کے ساتھ آئے

فراستؔ اہل جہاں ہم سفر ہیں خوشیوں کے
مقام رنج تلک کب کسو کے ساتھ آئے


Leave a comment

+