شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجاز گل

  • غزل


کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ


کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ

بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ

کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ

ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو
خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ

یہ میں ہوں تو ہے ہیولیٰ ہے ہر مسافر کا
جو مٹ رہا ہے تھکن سے ادھر غبار کے بیچ

کوئی لکیر سی پانی کی جھلملاتی ہے
کبھی کبھی مرے متروک آبشار کے بیچ

میں عمر کو تو مجھے عمر کھینچتی ہے الٹ
تضاد سمت کا ہے اسپ اور سوار کے بیچ


Leave a comment

+