شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجاز عبید

  • غزل


نئے سفر میں جو پچھلے سفر کے ساتھی تھے


نئے سفر میں جو پچھلے سفر کے ساتھی تھے
پھر آئے یاد کہ اس رہ گزر کے ساتھی تھے

کہوں بھی کیا مجھے پل بھر میں جو بکھیر گئے
ہوا کے جھونکے مری عمر بھر کے ساتھی تھے

ستارے ٹوٹ گئے اوس بھی بکھر سی گئی
یہی تھے جو مری شام و سحر کے ساتھی تھے

شفق کے ساتھ بہت دیر تک دکھائی دیئے
وہ سارے لوگ جو بس رات بھر کے ساتھی تھے

یہ کیسی ہجر کی شب وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے
جو چاند تارے مری چشم تر کے ساتھی تھے


Leave a comment

+