شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجاز صدیقی

  • غزل


مل سکے گی اب بھی داد آبلہ پائی تو کیا


مل سکے گی اب بھی داد آبلہ پائی تو کیا
فاصلے کم ہو گئے منزل قریب آئی تو کیا

ہے وہی جبر اسیری اور وہی غم کا قفس
دل پہ بن آئی تو کیا یہ روح گھبرائی تو کیا

اپنی بے تابئ دل کا خود تماشا بن گئے
آپ کی محفل کے بنتے ہم تماشائی تو کیا

بات تو جب ہے کہ سارا گلستاں ہنسنے لگے
فصل گل میں چند پھولوں کی ہنسی آئی تو کیا

لاؤ ان بے کیفیوں ہی سے نکالیں راہ کیف
وقت اب لے گا کوئی پر کیف انگڑائی تو کیا

کم نگاہی نے اسے کچھ اور گہرا کر دیا
وہ چھپاتے ہی رہیں رنگ شناسائی تو کیا

پھر ذرا سی دیر میں چونکائے گا خواب سحر
آخر شب جاگنے کے بعد نیند آئی تو کیا

بیڑیاں وہم تعلق کی نئی پہنا گئے
دوست آ کر کاٹتے زنجیر تنہائی تو کیا

شورش افکار سے اعجازؔ داماندہ سہی
چھن سکے گی پھر بھی فکر و فن کی رعنائی تو کیا


Leave a comment

+