شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دیپک پرجاپتی خالص

  • غزل


جب کبھی بھی اس جہاں سے رخصتی مجھ کو ملے


جب کبھی بھی اس جہاں سے رخصتی مجھ کو ملے
قبل اس سے اے خدا کچھ زندگی مجھ کو ملے

میں تو زندہ ہوں اندھیروں پر سو مجھ کو ہے یہ ڈر
مر نہ جاؤں میں اگر کچھ روشنی مجھ کو ملے

عمر بھر میں اپنے آنسو آب صورت پی سکوں
چاہتا ہوں اس طرح کی تشنگی مجھ کو ملے

اک ذرا دیکھے سے میرے نفرتیں ہو جائیں ختم
مل سکے مجھ کو تو یہ جادوگری مجھ کو ملے

جیسا باہر سے ہو ویسا ہی وہ اندر سے بھی ہو
کاش اس دنیا میں ایسا آدمی مجھ کو ملے

کیوں مری قسمت میں اس نے درد و غم کچھ کم لکھے
پوچھ لوں گا میں خدا سے گر کبھی مجھ کو ملے


Leave a comment

+