شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دور آفریدی

  • غزل


جہاں ان کو ان کے اشاروں کو دیکھا


جہاں ان کو ان کے اشاروں کو دیکھا
وہیں دل کی سازش کے ماروں کو دیکھا

میں کچھ بے تکی باتیں باتیں سنا دوں
تڑپتے ہوئے آبشاروں کو دیکھا

ستارے بھی سونے لگے وہ نہ آئے
خلاف تمنا سہاروں کو دیکھا

بھنور کے فسانے سناتا رہا ہوں
نہ ساحل کو دیکھا نہ دھاروں کو دیکھا

جہاں خود کو دیکھا خزاں ہی خزاں ہے
جہاں ان کو دیکھا بہاروں کو دیکھا

کیا احتجاج اس زمانے نے اس کا
کسی دھن میں جب بے قراروں کو دیکھا

یہ چھپ چھپ کے یکجا پئیں دورؔ و زاہد
کسی نے بھی ان شاہکاروں کو دیکھا


Leave a comment

+