شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دلشاد نسیم

  • غزل


نہ جانے کیسی محبت کے وعدے رات جلے


نہ جانے کیسی محبت کے وعدے رات جلے
جلا جو خط تو سکھی میرے دونوں ہاتھ جلے

گزارا دن جو اداسی میں شام کہنے لگی
بہت اکیلی ہوں میں کوئی میرے ساتھ جلے

پلٹ کے حال نہ پوچھا فریب کاروں نے
یہ دل کے ساتھ مرے ایک اور گھات جلے

گنوا کے بیٹھی ہوں میں آج اپنا صبر و قرار
کہ ساتھ چاند کے میری تو ساری رات جلے

میں اس کہانی کا کردار ہوں کہ جس میں سدا
وفا کو لکھنے سے پہلے ہی میرا ہاتھ جلے

خزاں کے بعد بہاروں کی راہ دیکھی تو
یہ حیف صد کہ مری آرزو کے پات جلے

ہے پیاس ایسی کہ دلشادؔ آنسو تک ہیں پیے
کہ تیرے ہجر میں دل میرا بات بات جلے


Leave a comment

+