شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

درشن سنگھ

  • غزل


جب آدمی مدعائے حق ہے تو کیا کہیں مدعا کہاں ہے


جب آدمی مدعائے حق ہے تو کیا کہیں مدعا کہاں ہے
خدا ہے خود جس کے دل میں پنہاں وہ ڈھونڈھتا ہے خدا کہاں ہے

یہ بزم یاران خود نما ہے نہ کر خلوص وفا کی باتیں
سبھی تو ہیں مدعی وفا کے یہاں کوئی بے وفا کہاں ہے

تمام پرتو ہیں عکس پرتو تمام جلوے ہیں عکس جلوہ
کہاں سے لاؤں مثال صورت کہ آپ سا دوسرا کہاں ہے

نہاں ہیں تکمیل خود شناسی میں جلوہ ہائے خدا شناسی
جو اپنی ہستی سے بے خبر ہے وہ آپ سے آشنا کہاں ہے

پڑی ہے سنسان دل کی وادی اکیلا محو تلاش ہوں میں
کہ عشق کے راہرو کدھر ہیں وفاؤں کا قافلہ کہاں ہے

جنہیں وسائل پہ ہے بھروسا یہ بات ان کو بتا دے کوئی
بچا لے کشتی کو جو بھنور سے خدا ہے وہ ناخدا کہاں ہے

پڑا ہی رہنے دو سر بہ سجدہ نہ چھوٹنے دو یہ آستانہ
کہ درشنؔ خستہ کا ٹھکانا تمہارے در کے سوا کہاں ہے


Leave a comment

+