شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

درشن سنگھ

  • غزل


قید غم حیات سے اہل جہاں مفر نہیں


قید غم حیات سے اہل جہاں مفر نہیں
ایسی ملی ہے شام غم جس کی کوئی سحر نہیں

ہے وہ سفر جو عشق کو جانب دوست لے چلے
ورنہ سفر کے واسطے کون سی رہ گزر نہیں

اہل خرد کو چاہیے دل کے نگر میں آ بسیں
دل سا حسین و خوش نما اور کوئی نگر نہیں

تیرے کرم پہ ہے یقیں گرچہ یہ جانتا ہوں میں
نالہ ہے میرا نارسا آہ میں کچھ اثر نہیں

حسرت انتظار کی بات نہ ہم سے پوچھئے
ہے یہ طویل داستاں قصۂ مختصر نہیں

لٹ تو گئے ہیں دل مگر مل بھی گئی ہیں منزلیں
رہ گزر حیات میں عشق سا راہبر نہیں

اپنا رہا نہ ہوش جب راز حیات پا لیا
نعمت بے خودی سمجھ ہوش کا یہ ثمر نہیں

عشق متاع لا مکاں عشق متاع جاوداں
شعلۂ دائمی ہے یہ منظر یک شرر نہیں

درشنؔ مست سے ملیں کھولے گا راز آگہی
گرچہ وہاں ہے جس جگہ اپنی اسے خبر نہیں


Leave a comment

+