شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دخلن بھوپالی

  • غزل


غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی


غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی
ہر ایک شعر میں آہ و فغاں نکلے گی

سفر کی مشکلیں رونے کا فائدہ کیا ہے
کہ جاتے جاتے ہی میری تھکان نکلے گی

جبیں کے نیچے دو کشتی میں باندھ لی ہے ندی
ضرور لے گی یہ اک دن اپھان نکلے گی

یہ سارے طنز یہ طعنے یہ رشتے ناطے سب
کہاں چھپیں گے جو میری زبان نکلے گی

وہ جس نے خود پہ روایت کا رکھ لیا ہے قفس
وہ ایک لڑکی میرا آسمان نکلے گی

میں چند لمحے اگر زیست سے ہٹا دوں تو
یہ میری زندگی بس خاکدان نکلے گی

یہ ضبط صبر تبسم ہوئے ہیں چاک سبھی
میں سخت جان ہوں لیکن یہ جان نکلے گی


Leave a comment

+