شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

داؤد محسن

  • غزل


آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے


آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے
یہ عناد باہمی کا ہی فقط انجام ہے

حق شناسی کا چلن ہم میں نہیں باقی رہا
صبح اپنی پر الم ہے پر خطر ہر شام ہے

حیف بربادیٔ گلشن اپنے ہی ہاتھوں ہوئی
مفت میں باد خزاں کے سر پہ کیوں الزام ہے

دھندلی دھندلی سی فضا ہے مہر اور اخلاص کی
اب رفاقت آشتی اور دوستی گمنام ہے

تپتے صحرا سے تو بچ کر آ گئے تھے ہم مگر
اب قدم کیسے بڑھائیں پر خطر ہر گام ہے

کیا گرانی اور ارزانی کی ہم باتیں کریں
پانی مہنگا ہے یہاں اور خون سستے دام ہے

باپ سے بچے اے محسنؔ منحرف ہونے لگے
تربیت اور علم کے فقدان کا انجام ہے


Leave a comment

+