شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

چندر بھان خیال

  • غزل


کھول سمٹ کے اندر سمٹ کر رہ گیا میں


کھول سمٹ کے اندر سمٹ کر رہ گیا میں
اپنی سائے سے بھی کٹ کر رہ گیا میں

لے گیا وہ چھین کر میری جوانی
اس پہ بس یوں ہی جھپٹ کر رہ گیا میں

جب کبھی نکلا جلوس رنگ و نکہت
ٹوٹی دیواروں سے سٹ کر رہ گیا میں

چل رہا تھا وہ میرے شانہ بہ شانہ
خود ہی اس سے دور ہٹ کر رہ گیا میں

اس نے مٹی بھر مجھے اونچا کیا جب
اور بھی اک ہاتھ گھٹ کر رہ گیا میں

چاہ تھی گھل جاؤ سارے منظروں میں
حیف کچھ لوگوں میں بٹ کر رہ گیا میں

بارہا ایسا ہوا محسوس جیسے
آسمانوں سے لپٹ کر رہ گیا میں


Leave a comment

+