شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

چرخ چنیوٹی

  • غزل


جو آنسوؤں کو نہ چمکائے وہ خوشی کیا ہے


جو آنسوؤں کو نہ چمکائے وہ خوشی کیا ہے
نہ آئے موت پہ غالب تو زندگی کیا ہے

ہمیں خبر ہے نہ اپنی نہ اہل دنیا کی
کوئی بتائے یہ انداز بیخودی کیا ہے

میں ساتھ دیتا ہوں یاروں کا حد‌ منزل تک
میں جانتا نہیں دستور رہروی کیا ہے

ترے خیال میں دن رات مست رہتا ہوں
یہ بندگی جو نہیں ہے تو بندگی کیا ہے

ترے کرم سے میسر ہے دولت کونین
ترا کرم ہے جبھی تک مجھے کمی کیا ہے

نئے پرانے نشیمن سبھی جلا کر اب
نگاہ برق کھڑی دور تاکتی کیا ہے

کسی کی چشم کرم آپ پر نہیں تو کیوں
یہ خود سے پوچھیے کردار میں کمی کیا ہے

نہ آئی جاگتی آنکھوں کے دائرے میں کبھی
یہ بد نصیب کا اک خواب ہے خوشی کیا ہے

جو بات کہتا ہوں کرتے ہیں اس پہ حرف زنی
یہ دوستی ہے تو انداز دشمنی کیا ہے

قدم قدم پہ کیے چرخؔ زندگی نے مذاق
سمجھ میں آ نہ سکا قصد زندگی کیا ہے


Leave a comment

+