شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بشیر احمد شاد

  • غزل


فروغ شام کا منظر اس آفتاب میں تھا


فروغ شام کا منظر اس آفتاب میں تھا
کرن کرن وہ اجالا تھا پر حجاب میں تھا

ترے بدن کی تمازت تھی جس سے آگ لگی
چمن میں برق نہ شعلہ کوئی گلاب میں تھا

مرے قریب رہا پھر بھی مجھ کو پڑھ نہ سکا
مرا وجود تو محفوظ اک کتاب میں تھا

زمانے بھر کی نظر سے جو بچ گیا یارو
وہ شخص میری نگاہوں کے انتخاب میں تھا

کھلا جو نامۂ اعمال حشر میں میرا
بس ایک جرم محبت مرے حساب میں تھا

میں آشنائے محبت تو بے قرار ہی تھا
وہ آشنائے محبت نہ تھا عذاب میں تھا

میں دیکھتا ہی رہا پتھروں کی بارش میں
مرے حبیب کا چہرہ بھی اک نقاب میں تھا


Leave a comment

+