خود اپنے آپ کو زنجیر کرتا رہتا ہے
وہ میرے خواب کی تعبیر کرتا رہتا ہے
عجب نہیں کہ اسے میری آرزو ہی نہ ہو
کہ اب وہ آنے میں تاخیر کرتا رہتا ہے
نئے مکان کی وسعت نہ اس کو راس آئی
وہ اب بھی ذہن میں تصویر کرتا رہتا ہے
قلم اٹھانے کی تحریک بھی اسی نے دی
اور اب وہی ہے کہ تعزیر کرتا رہتا ہے
عیوب اپنے چھپاؤ گے کس طرح بسملؔ
وہ روز نامچہ تحریر کرتا رہتا ہے
Leave a comment