شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بخش لائلپوری

  • غزل


اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی


اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی
جہاں سے خون انسانی کی ارزانی نہیں جاتی

دروغ مصلحت کے دیکھ کر آثار چہروں پر
حقیقت آشنا آنکھوں کی حیرانی نہیں جاتی

نشان خسروی تو مٹ گئے ہیں لوح عالم سے
کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی

اندھیرا اس قدر ہے شہر پر چھایا سیاست کا
کسی بھی شخص کی اب شکل پہچانی نہیں جاتی

زمانہ کربلا کا نام سن کر کانپ اٹھتا ہے
ابھی تک خون شبیری کی جولانی نہیں جاتی

فزوں تر اور ہوتے جا رہے ہیں چاک دامن کے
رفو گر سے ہماری چاک دامانی نہیں جاتی

یہ مانا روشنی کو پی گئی ظلمت جہالت کی
مگر اس ذرۂ خاکی کی تابانی نہیں جاتی


Leave a comment

+