انتہا ضعف کی ہے صاف نمایاں مجھ سے
رمق جاں میں مرا جسم ہے پنہاں مجھ سے
شور ہے وہ نہ وہاں اور نہ یہاں وہ سنسان
شہر ویران ہے آباد بیاباں مجھ سے
بسکہ مشکل کو سمجھ رکھا ہے میں نے آسان
مشکلیں کرتے ہیں حل اپنے خود آساں مجھ سے
دامن دشت ہے اور پھر مرا پائے وحشت
پھر ہوا جوش جنوں دست و گریباں مجھ سے
شب تنہائی میں بیصبرؔ بقول غالبؔ
سایہ خورشید قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
Leave a comment