شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لیث قریشی

  • غزل


کوئی پیام مسلسل ہے شور دریا بھی


کوئی پیام مسلسل ہے شور دریا بھی
تہی سخن سے نہیں ہے سکوت صحرا بھی

فضائے دشت میں اہل جنوں کے ہنگامے
ہمیں تو راس نہ آئی مگر یہ دنیا بھی

زمین تشنہ دہن کی صدا تو آئی تھی
مگر یہ بات کہ ابر بہار برسا بھی

یہ بوئے گل بھی پریشاں بہت ہوئی لیکن
بہت ہوا مری آوارگی کا چرچا بھی

کیا ہے فتح کوئی لمحۂ وفا جب سے
مری گرفت میں امروز بھی ہے فردا بھی

ابھی تو تشنہ لبی کے سرور میں گم ہیں
ہم اہل ظرف کریں گے کبھی تقاضہ بھی

جہاں کو دیکھنے والی ہزار آنکھیں ہیں
انہیں میں ہوگی کہیں کوئی چشم بینا بھی

جو بے ہنر ہیں وہ شائستۂ گناہ نہیں
گناہ کرنے میں اک شرط ہے سلیقہ بھی

عجیب عالم بیگانگی میں آ نکلے
گراں گزرتی ہے دل پر تری تمنا بھی

جو مل رہا تھا بظاہر بڑے خلوص کے ساتھ
جناب لیثؔ نے اس آدمی کو سمجھا بھی


Leave a comment

+