شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق انجینئر

  • غزل


دھوپ بارش ہوا کمر بستہ


دھوپ بارش ہوا کمر بستہ
اور دریچے میں ایک گلدستہ

پیڑ سے پیڑ کٹ گیا ورنہ
کیا کلہاڑی اگر نہ ہو دستہ

غم سے ایسے نڈھال ہوں جیسے
ایک بچے کی پیٹھ پر بستہ

بارشوں کی دعائیں مانگی ہیں
اور دیوار گھر کی ہے خستہ

ایک جگنو تھا آس کی صورت
بھر گیا روشنی سے سب رستہ

باندھ رکھا ہے کب سے رخت سفر
کبھی آواز دے کوئی رستہ

بات خوشبو کی تھی مگر فاروقؔ
دھیان آیا کسی کا برجستہ


Leave a comment

+