شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر شہزاد

  • غزل


چھتیس سال کا بھی سنیاس چھین کر


چھتیس سال کا بھی سنیاس چھین کر
یہ کون لے گیا مرا بن باس چھین کر

اے شاہ کربلا مری امداد کو اب آ
خوش ہے غنیم مجھ سے مری پیاس چھین کر

سایہ نہ ہو تو دھوپ جلاتی ہے جسم کو
تم کیا کرو گے دھرتی سے آکاس چھین کر

جینے کی جو امنگ تھی وہ بھی نہیں رہی
بے آس کر گیا کوئی ہر آس چھین کر

تم نے بجھائی بجتی ہوئی بنسیوں کی کوک
مجھ سے مرے وجود کے تٹ طاس چھین کر

کچھ تو بتا میں تیرا گنہ گار کب ہوا
کیوں آتما کو بھرشٹ کیا ماس چھین کر

ماتم کناں ہیں سارے اساطیری واقعے
تنہا قلم کو کر دیا قرطاس چھین کر

راون نے پھر جدا کیا سیتا کو رام سے
پھر کلپنا بجھائی گئی قیاس چھین کر

سنجوگ جگ جنم کے ہوئے قطع الوداع
بن کو جلایا آگ نے بو باس چھین کر


Leave a comment

+