شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید اقبال ستار

  • غزل


وہ میرے ساتھ چلا سر سے دھوپ ڈھلنے تک


وہ میرے ساتھ چلا سر سے دھوپ ڈھلنے تک
ہوا بھی دوست رہی بس چراغ جلنے تک

کسے خبر تھی کہ سورج کو شام ڈس لے گی
ہمارے برف سے دل میں لہو پگھلنے تک

جلا جب اپنا ہی گھر اپنے سامنے تو کھلا
ہماری کوششیں ساری ہیں ہاتھ ملنے تک

بتا مجھے مرے ہمدم تو سوچتا کیا ہے
میں با وفا ہوں فقط رخ ترا بدلنے تک

جہان وقت کی رو میں تھے سنگ کی صورت
قدم قدم پہ لگیں ٹھوکریں سنبھلنے تک

صدائے تیرگی ستارؔ سن رہا ہوں میں
مرا چراغ ہے روشن لہو کے جلنے تک


Leave a comment

+