شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یاسمین حبیب

  • غزل


وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا


وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش گماں نہ تھا جس کا

ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں
وہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا

کشید کرتا رہا ہجرتوں سے درد کی مے
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا

اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں
کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا

جلی تو یوں کہ ہوا راکھ انگ انگ مرا
عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا


Leave a comment

+