شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ راجہ

  • غزل


شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی


شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی

خاک کی لوح پہ لکھا تو گیا نام مرا
اصل مقصود ترا مجھ کو مٹانا ہی سہی

خواب عریاں تو اسی طرح تر و تازہ ہے
ہاں مری نیند کا ملبوس پرانا ہی سہی

ایک اڑتے ہوئے سیارے کے پیچھے پیچھے
کوئی امکان کوئی شوق روانہ ہی سہی

کیا کریں آنکھ اگر اس سے سوا چاہتی ہے
یہ جہان گزراں آئنہ خانہ ہی سہی

دل کا فرمان سر دست اٹھا رکھتے ہیں
خیر کچھ روز کو تکمیل زمانہ ہی سہی


Leave a comment

+