شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

محبوب خزاں

  • غزل


یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو


یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو

حسن اور نجات میں فصل مشرقین ہے
کون چاہتا نہیں حسن کو نجات کو

یہ سکون بے جہت یہ کشش عجیب ہے
تجھ میں بند کر دیا کس نے شش جہات کو

ساحل خیال پر کہکشاں کی چھوٹ تھی
ایک موج لے گئی ان تجلیات کو

آنکھ جب اٹھے بھر آئے شعر اب کہا نہ جائے
کیسے بھول جائے وہ بھولنے کی بات کو

دیکھ اے مری نگاہ تو بھی ہے جہاں بھی ہے
کس نے با خبر کیا دوسرے کی ذات کو

کیا اے مری نگاہ تو بھی ہے جہاں بھی ہے
کس نے با خبر کہا دوسرے کی ذات کو

کیا ہوئیں روایتیں اب ہیں کیوں شکایتیں
عشق نامراد سے حسن بے ثبات کو

اے بہار سر گراں تو خزاں نصیب ہے
اور ہم ترس گئے تیرے التفات کو


Leave a comment

+