شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق انجینئر

  • غزل


سارے الزام بھول جاتا ہوں


سارے الزام بھول جاتا ہوں
میں تو دشنام بھول جاتا ہوں

روز میں پوچھتا ہوں تیرا نام
روز میں نام بھول جاتا ہوں

دیکھتا ہوں بکھرتے پھولوں کو
اپنا انجام بھول جاتا ہوں

ایسا چسکا لگا ہے باتوں کا
گھر کا ہر کام بھول جاتا ہوں

یاد کرتا ہوں اس کو سارا دن
اور سر شام بھول جاتا ہوں

ایسا مصروف کر لیا خود کو
اکثر آرام بھول جاتا ہوں

خوش تجھے دیکھ کر میں اپنے بھی
غم و آلام بھول جاتا ہوں

وہ گلی تجھ پہ بند ہے لیکن
دل ناکام بھول جاتا ہوں

دیکھتا ہوں تجھے قریب سے آ
میں ترا نام بھول جاتا ہوں

کیوں ستم اس کے بارہا فاروقؔ
گام در گام بھول جاتا ہوں


Leave a comment

+