شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہر عبدالحی

  • غزل


جو در کھلا ہے شکستہ مکاں کا حصہ ہے


جو در کھلا ہے شکستہ مکاں کا حصہ ہے
مرا یقین فریب گماں کا حصہ ہے

کہاں سے آئی حرم میں یہ خاک راہ گزر
وہیں پہ ڈال دو اس کو جہاں کا حصہ ہے

کسی شکستہ جگہ ٹھیک بیٹھتا ہی نہیں
دل حزیں کا یہ ٹکڑا کہاں کا حصہ ہے

سفر نصیب ہوں ساحل سے کیا غرض مجھ کو
مرا سفینہ تو آب رواں کا حصہ ہے

عجب اصول بنے ہیں یہاں تجارت کے
کسی کا سود کسی کے زیاں کا حصہ ہے

فضائے عالم انسانیت کا افسانہ
کہیں زمین کہیں آسماں کا حصہ ہے

اسے زمانے کی گردش مٹا نہیں سکتی
یہ زندگی نفس‌ جاوداں کا حصہ ہے

ولیؔ سے لے کے جو پھیلی ہے میرؔ و غالبؔ تک
ہمارا قصہ اسی داستاں کا حصہ ہے

فلک مثال ہے ماہرؔ ہماری بستی بھی
ہمارا گھر بھی کسی کہکشاں کا حصہ ہے


Leave a comment

+