شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غالب احمد

  • غزل


زنجیر میں ہیں دیر و حرم کون و مکاں بھی


زنجیر میں ہیں دیر و حرم کون و مکاں بھی
ہے عشق ہمیں ان سے نہیں جن کا گماں بھی

جو جسم کے ذروں میں خدا ڈھونڈ رہی ہے
یوسف کی زلیخا میں ہے وہ روح تپاں بھی

اس مہر خموشی میں نہاں روح تکلم
اس سوئے ہوئے شہر کی ہے اپنی زباں بھی

ہر لہر کے سینے سے لپٹتا ہے مرا دل
منجدھار کے اس پار ہو ساحل کا نشاں بھی

کیوں وقت کی لہریں مجھے لے جائیں کسی اور
دائم دل دریا ہوں میں موجوں میں رواں بھی

ہم زیست کی سرحد پہ ملے موت سے لیکن
ہے دشت طلب بھی وہی اور منزل جاں بھی


Leave a comment

+