شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

راز یزدانی

  • غزل


نہیں کہ اپنی تباہی کا رازؔ کو غم ہے


نہیں کہ اپنی تباہی کا رازؔ کو غم ہے
تمہاری زحمت عہد کرم کا ماتم ہے

نثار جلوہ دل و دیں ذرا نقاب اٹھا
وہ ایک لمحہ سہی ایک لمحہ کیا کم ہے

کسی نے چاک کیا ہے گلوں کا پیراہن
شعاع مہر تجھے اعتماد شبنم ہے

قضا کا خوف ہے اچھا مگر اس آفت میں
یہ معجزہ بھی کہ ہم جی رہے ہیں کیا کم ہے

وہ رقص شعلہ وہ سوز و گداز پروانہ
جدھر چراغ ہیں روشن عجیب عالم ہے

حدود دیر و حرم سے گزر چکا شاید
کہ اب اجازت سجدہ ہے اور پیہم ہے

شمیم غنچہ و گل رنگ لالہ نغمۂ موج
ترے جمال کی جو شرح ہے وہ مبہم ہے

لطافتوں سے زمانہ بھرا پڑا ہے مگر
مری نظر کی ضرورت سے کس قدر کم ہے

فریب دل نے محبت میں کھائے ہیں کیا کیا
ہر اک فریب پر اب تک یقین محکم ہے

مری نگاہ کہاں تک جواب دے آخر
تری نگاہ کا ہر ہر سوال مبہم ہے

ابھی تو اپنی نگاہوں کے التفات کو روک
ابھی تو منظر ہستی تمام مبہم ہے


Leave a comment

+