شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثناء اللہ ظہیر

  • غزل


خود میں اترے اور طغیانی سے باہر آ گئے


خود میں اترے اور طغیانی سے باہر آ گئے
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے

اس کی رونق میں بہت سنسان سے لگتے تھے ہم
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے

لفظ وہ جن کو زباں تک لانے کی ہمت نہ تھی
آخر یک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے

دم بخود اس حسن کو ہی دیکھتے رہتے تھے ہم
یوں برت ٹوٹا کہ حیرانی سے باہر آ گئے

آستیں میں پل رہے تھے لیکن اک دن یوں ہوا
سانپ آپس کی پریشانی سے باہر آ گئے

وہ تعلق ہم کو قید خواب جیسا تھا ظہیرؔ
کھل گئیں آنکھیں تو آسانی سے باہر آ گئے


Leave a comment

+