شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دتا تریہ کیفی

  • غزل


ہے عکس آئینہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا


ہے عکس آئینہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا
تصور ہے مرا استاد بہزاد اور مانی کا

غنیمت سمجھو یہ مل بیٹھنا یاران جانی کا
بھروسا کیا ہے دنیا میں دو روزہ زندگانی کا

نزاکت ہو گئی ضرب المثل ان کی زمانے میں
بھلا ہو یا الوہی اس ہماری سخت جانی کا

ہے عکس اس چشم پر نم میں کسی آبی دوپٹے کا
بنایا ہے مکاں ہم نے عجب پانی میں پانی کا

غضب کا کاٹ کر کرتی ہیں ادائیں اس پری وش کی
ابھاروں پر ہے جوبن اور عالم ہے جوانی کا

امنگوں کی کسک بے چین کرتی ہے انہیں لیکن
نزاکت روک دیتی ہے ارادہ نوجوانی کا

شب فرقت جو ٹھنڈے ٹھنڈے ہو جائے وصال اپنا
گماں ہو موت پر اپنی حیات جاودانی کا

یہ دل کیوں بجھ گیا سوز فراق شعلہ رویاں میں
تماشا ہے کیا ہے آگ نے یاں کام پانی کا

خیال اک چشم میگوں کا سدا مسرور رکھتا ہے
یہاں کیا کام ہے ساقی شراب ارغوانی کا

یہی ہیں دیکھ لو وہ شاعر معجز بیاں کیفیؔ
زمانے میں ہے چرچا آج جن کی خوش بیانی کا


Leave a comment

+