شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اشراق عزیزی

  • غزل


ترے آنچل کو دھانی لکھ رہا ہوں


ترے آنچل کو دھانی لکھ رہا ہوں
تجھے میں رات رانی لکھ رہا ہوں

یہ درد دل یہ آنسو زخم سارے
کسی کی مہربانی لکھ رہا ہوں

ہے میرے ذہن میں جس کا تصور
اسے پریوں کی رانی لکھ رہا ہوں

کسی کو لن ترانی لگ رہی ہیں
جو باتیں خوش بیانی لکھ رہا ہوں

ترے لب میرے لب کے ماحصل ہیں
ترے صدقے جوانی لکھ رہا ہوں

ہوا کو بھی کبھی میں کاٹ دوں گا
ابھی پانی پہ پانی لکھ رہا ہوں

جلال الدین اکبر سے نہ کہنا
محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں

جسے کہتی ہے دنیا نوکرانی
اسے محلوں کی رانی لکھ رہا ہوں

ادب سے بیٹھیے خاموش رہیے
بزرگوں کی نشانی لکھ رہا ہوں

جسے اشراقؔ جو کرنا ہے کر لے
میں اس دنیا کو فانی لکھ رہا ہوں


Leave a comment

+