شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعتبار ساجد

  • غزل


کہا دن کو بھی یہ گھر کس لیے ویران رہتا ہے


کہا دن کو بھی یہ گھر کس لیے ویران رہتا ہے
یہاں کیا ہم سا کوئی بے سر و سامان رہتا ہے

در و دیوار سناٹے کی چادر میں ہیں خوابیدہ
بھلا ایسی جگہ زندہ کوئی انسان رہتا ہے

مسلسل پوچھنے پر ایک چلمن سے جواب آیا
یہاں اک دل شکستہ صاحب دیوان رہتا ہے

جھجک کر میں نے پوچھا کیا کبھی باہر نہیں آتا
جواب آیا اسے خلوت میں اطمینان رہتا ہے

کہا کیا اس کے رشتہ دار بھی ملنے نہیں آتے
جواب آیا یہ صحرا رات دن سنسان رہتا ہے

کہا کوئی تو ہوگا اس کے دکھ سکھ بانٹنے والا
جواب آیا نہیں خالی یہ گھر یہ لان رہتا ہے

کہا اس گھر کے آنگن میں ہیں کچھ پھولوں کے پودے بھی
جواب آیا کہ خالی پھر بھی ہر گلدان رہتا ہے

کہا کیا اس محلے میں نہیں پرسان حال اس کا
جواب آیا خیال اس کا مجھے ہر آن رہتا ہے

خدا کا شکر ہے ہم اک فضا میں سانس لیتے ہیں
اگر ملتے نہیں اتنا تو اطمینان رہتا ہے


Leave a comment

+