شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رئیس فراز

  • غزل


ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا


ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا
کیا کرتا مجرم بھی تو خود اپنا سایا تھا

ایسا ہوتا کاش کہیں کچھ رنگ بھی مل جاتے
اس نے میرے خوابوں کا خاکہ تو بنایا تھا

اب تو بھی باہر آ جا یوں جسم میں چھپنا کیا
پردہ ہی کرنا تھا تو کیوں مجھ کو بلایا تھا

آج کے موسم سے بے سدھ کچھ لوگ کفن چہرہ
اب تک سہمے بیٹھے ہیں طوفان کل آیا تھا

جی چاہے تو اور بھی رک لے پلکوں کی چھاؤں میں
میں نے تو تجھ کو وقت کا بس احساس دلایا تھا

روز سویرے ویرانہ بچتا ہے فرازؔ آخر
ہم نے رات بھی خوابوں میں اک شہر سجایا تھا


Leave a comment

+