شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق مضطر

  • غزل


آنکھوں میں موج موج کوئی سوچنے لگا


آنکھوں میں موج موج کوئی سوچنے لگا
پانی میں بے ثبات نگر ڈوبنے لگا

اک شاخ رنگ ہات سے موسم کے چھٹ گئی
خالی بدن رگوں میں کوئی لوٹنے لگا

ہے اپنے درمیان کوئی فصل ناروا
دہلیز پہ کھڑا میں کسے سوچنے لگا

وہ روزن خیال، صدا، سائیگی سماں
پھر حرف زہر زہر زباں گھولنے لگا

میں ایک برگ خشک کبھی کا اسیر گرد
پھر کون ڈال ڈال مجھے ٹانکنے لگا

میں بولتا رہا تو کسی نے نہیں سنا
میں چپ ہوا تو سارا نگر گونجنے لگا


Leave a comment

+