شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وحید اختر

  • غزل


سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں


سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں
ملیں جو گم شدہ راہیں تو لوٹ کر جاؤں

مسلسل ایک سی گردش سے ہے قیام اچھا
زمین ٹھہرے تو میں بھی کہیں ٹھہر جاؤں

سمیٹوں خود کو تو دنیا کو ہاتھ سے چھوڑوں
اثاثہ جمع کروں میں تو خود بکھر جاؤں

ہے خیر خواہوں کی تلقین مصلحت بھی عجیب
کہ زندہ رہنے کو میں جیتے جی ہی مر جاؤں

صبا کے ساتھ ملا مجھ کو حکم دربدری
گلوں کی ضد ہے مزاج ان کا پوچھ کر جاؤں

مری اڑان اگر مجھ کو نیچے آنے دے
تو آسمان کی گہرائی میں اتر جاؤں

وہ کہہ گیا ہے کروں انتظار عمر تمام
میں اس کو ڈھونڈنے نکلوں نہ اپنے گھر جاؤں

کہاں اٹھائے پھروں بوجھ اپنے سر کا وحیدؔ
یہ جس کا قرض ہے اس کے ہی در پہ دھر جاؤں

RECITATIONS نعمان شوق



00:00/00:00 سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں نعمان شوق

Leave a comment

+