شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاضل انصاری

  • غزل


مرے زخم جگر کو زخم دامن دار ہونا تھا


مرے زخم جگر کو زخم دامن دار ہونا تھا
ذرا واضح تمہارے لطف کا اظہار ہونا تھا

دل پر داغ کی تاریکیوں پر سخت حیرت ہے
یہ وہ مطلع ہے جس کو مطلع انوار ہونا تھا

تمہیں لینا تھا پہلے جائزہ اپنی نگاہوں کا
پھر اس کے بعد موسیٰ طالب دیدار ہونا تھا

پریشاں ہیں مثال گرد گمنامی کے صحرا میں
بہت ایسے کہ جن کو قافلہ سالار ہونا تھا

ادھر وہ آئے آنکھوں میں ادھر خواب اجل آیا
کہاں سوئی ہوئی تقدیر کو بیدار ہونا تھا

کوئی دیکھے تو فاضلؔ قابلیت باغبانوں کی
وہاں کانٹے ہی کانٹے ہیں جہاں گلزار ہونا تھا


Leave a comment

+