شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دلاور علی آزر

  • غزل


زمین اپنے ہی محور سے ہٹ رہی ہوگی


زمین اپنے ہی محور سے ہٹ رہی ہوگی
وہ دن بھی دور نہیں زیست چھٹ رہی ہوگی

بڑھا رہا ہے یہ احساس میری دھڑکن کو
گھڑی میں سوئی کی رفتار گھٹ رہی ہوگی

میں جان لوں گا کہ اب سانس گھٹنے والا ہے
ہرے درخت سے جب شاخ کٹ رہی ہوگی

نئے سفر پہ روانہ کیا گیا ہے تمہیں
تمہارے پاؤں سے دھرتی لپٹ رہی ہوگی

غلط کہا تھا کسی نے یہ گاؤں والوں سے
چلو کہ شہر میں خیرات بٹ رہی ہوگی

فلک کی سمت اچھالی تھی جل پری میں نے
ستارے ہاتھ میں لے کر پلٹ رہی ہوگی

بدن میں پھیل رہی ہے یہ کائنات آزرؔ
ہماری آنکھ کی پتلی سمٹ رہی ہوگی


Leave a comment

+